۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
نہج البلاغہ کی روشنی میں اسلامی معاشرہ کی منیجمنٹ کے اصول

حوزہ/ اسلامی معاشرہ کی مدیریت اور اس کے انتظام کےلئے جہاں ایک طرف لائق اور صالح قیادت و انتظامیہ کی ضرورت ہوتی ہے جس میں تمام الہی اخلاقی صفات پائے جاتے ہوں اور وہ خود الہی احکام کا پابندہو۔ دوسری طرف خود معاشرہ میں قانونیت، حق مداری، عقلانیت اور علم کی پیروی جیسے بنیادی اصول کا پایا جانا ضروری ہے۔

حوز‌ہ نیوز ایجنسی ।

تحریر: سید محمد .ر. موسوی

قانونیت اور حق مداری:

اسلامی اور الہی اقدار پر قائم معاشرے بلکہ ہر طرح کے معاشرے کی ترقی اور نظم و انتظام اور اہداف تک پہونچنے کے لئے اس میں قانون کی پابندی کرنا اور حق مداری کا پایاجانا بنیادی اصول میں سے ایک ہے۔ قرآن مجید اور احادیث کی تاکیدات سے قطع نظر فقط نہج البلاغہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس مسئلہ پر بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے۔ معاشرہ اگر قانون اور حق کی حاکمیت کے تحت چلتا ہے تو تمام سیاسی، اقتصادی، امنیتی، فوجی، فرہنگی، علمی وغیرہ جیسے مراحل میں بالاترین مطلوبہ منازل پر فائز ہوتا ہے۔ چنانچہ امیرالمومنینؑ اپنی ظاہری حکومت اور اسلامی معاشرہ پر ولایت و سرپرستی کے اہداف اور اسے قبول کرنے کے بنیادی سبب کی طرف یوں اشارہ فرماتے ہیں کہ:
"وَاللهِ مَا كَانَتْ لِي فِي الْخِلاَفَةِ رَغْبَةٌ، وَلاَ فِي الْوِلاَيَةِ إِرْبَةٌ وَلكِنَّكُمْ دَعَوْتُمُونِي إِلَيْهَا، وَحَمَلْتُمُونِي عَلَيْهَا، فَلَمَّا أَفْضَتْ إِلَيَّ نَظَرْتُ إِلَى كِتَابِ اللهِ وَمَا وَضَعَ لَنَا، وَأَمَرَنَا بِالْحُكْمِ بِهِ فَاتَّبَعْتُهُ، وَمَا اسْتَسَنَّ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله فَاقْتَدَيْتُهُ"؛ خدا کی قسم! مجھے تو کبھی بھی اپنے لئے خلافت اور حکومت کی حاجت و تمنا نہیں رہی تم ہی لوگوں نے مجھے اس کی طرف دعوت دی اور اس پر آمادہ کیا۔ چنانچہ جب وہ مجھ تک پہنچ گئی تو میں نے اللہ کی کتاب کو نظر میں رکھا اور جو لائحہ عمل اس نے ہمارے سامنے پیش کیا اور جس طرح فیصلہ کرنے کا اس نے حکم دیا میں اسی کے مطابق چلا اورجو سنت پیغمبر ﷺقرار پاگئی اس کی پیروی کی" ۔
اسی طرح امیرالمومنین ؑ مطلوبہ اسلامی معاشرہ میں قانون کے نفاذ اور اس کی بنیادی ضرورت کے لئے بارے میں بیان فرماتے ہیں:
"امره بتقوي الله، و ايثار طاعته، و اتباع ما امر به في کتابه من فرائضه و سننه، التي لايسعد احد الا باتباعها ولايشقي الا مع جحودها و اضاعتها؛ سب سے پہلا امر یہ ہے کہ اللہ سے ڈرو اس کی اطاعت کو اختیار کرو اور جن فرائض کا اپنی کتاب میں حکم دیا ہے ان کا اتباع کرو کہ کوئی شخص ان کے اتباع کئے بغیر نیک بخت نہیں ہوسکتا ہے اور کوئی شخص ان کے انکار اور بربادی کے بغیر بدبخت نہیں قرار دیا جاسکتا" ۔
معاشرہ میں قانون مداری اور قانون کی پیروی کے بہت سے آثار و برکات ہیں جن کو بیان کرنے کے لئے جداگانہ تحریر کی ضرورت ہے مگر بہ طور خلاصہ کہا جاسکتا ہے کہ قانون مداری سے اسلامی معاشرہ صالح ہوسکتا ہے ، تبعیض اور ناہماہنگی، نفع و نقصانات میں نفس و خود پرستی وغیرہ جیسے مسائل پیش نہیں آتے ہیں۔
قانونیت سے بالاتر حق مداری اور حقیقت کی پیروی کرنا معاشرہ کی اصلاح اور اس کے نظم و ضبط اور اس کے ادارہ پانے کے لئے نہایت ضروری امر ہے۔ اس لئے قانون کی پیروی کے مطلوبہ اور صحیح آثار و برکات اس وقت حاصل ہونگے جب اس قانون کی بنیاد حق و حقیقت پر ہو اور معاشرہ کے لوگ اس کی پیروی کرے ۔ بہرحال حق مداری نہایت ضروری ہے جیساکہ امیرالمومنینؑ نہج البلاغہ میں مطلوبہ اسلامی معاشرے کے اعضاء کی یوں توصیف فرماتے ہیں کہ:
"يعترف بالحق قبل ان يشهد عليه؛ گواہی طلب کئےجانے سے پہلے حق کا اعتراف کرتے ہیں" ۔
"و یصف الحق و یعمل به؛ حق کی معرفت رکھنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل بھی کرتے ہیں" ۔
امیرالمومنین ؑ ایک مطلوبہ اسلامی معاشرے میں حق محوری کو فروغ دینے کے لئے لوگوں سے حق اور عدالت آمیز مشورہ دینے کی ترغیب فرماتے ہیں اور ہر طرح کے ڈر اور خوف کی نفی کرتے ہیں آپ کی نظر میں مطلوبہ اسلامی معاشرے کی ایک اہم خاصیت یہ ہے کہ حاکم، عوام کی حق بات کو اپنے دل کی گہرائیوں سے سنتا ہے اور انکے حق اور عدالت آمیز مشوروں سے استفادہ کرتے ہوئے معاشرے کی فلاح اور بہبود کی جدوجہد میں رہتا ہے یہ سلطنت اور شہنشاہی نظام نہیں ہے جہاں حق اور حقیقت کا گھلا گھونٹا جاتا ہے یہاں ہر چیز کا محور اور مرکز حق ہے ۔ چنانچہ آپ ؑ بیان فرماتے ہیں :
"وَ لا تَظُنُّوا بِي اسْتِثْقالاً فِي حَقِّ قِيلَ لِي، وَلا الْتِماسَ إِعْظامٍ لِنَفْسِي، فَإِنَّهُ مَنِ اسْتَثْقَلَ الْحَقَّ انْ يُقالَ لَهُ، اَوِالْعَدْلَ انْ يُعْرَضَ عَلَيْهِ كانَ الْعَمَلُ بِهِما اَثْقَلَ عَلَيْهِ، فَلا تَكُفُّوا عَنْ مَقالَةٍ بِحَقِّ اَوْ مَشُورَةٍ بِعَدْلٍ؛ میرے متعلق یہ گمان نہ کرو کہ میر ے سامنے کوئی حق بات کہی جائے گی تو مجھے گراں گزرے گی اور نہ یہ خیال کرو کہ میں یہ درخواست کروں گا کہ مجھے بڑھا چڑھا دو کیونکہ جو اپنے سامنے حق کے کہے جانے اورعدل کے پیش کئے جانے کو بھی گراں سمجھتا ہو اسے حق او رانصاف پرعمل کرنا کہیں زیادہ دشوار ہوگاتم اپنے کو حق کی بات کہنے اور عدل کا مشورہ دینے سے نہ روکو" ۔
خلاصہ یہ ہے کہ ایک صالح اور مطلوبہ اسلامی معاشرہ اور اس کے نظم و ضبط و استحکام کے لئے قانونیت اور حق مداری کے اصول کی پیروی کرنا اور معاشرہ میں اس کا رواج پانا نہایت ضروری اور لازمی امر ہے، حاکم سے لیکر فرد ادنیٰ تک ہر ایک قانون اور حق و حقانیت کاپابند و پیروکار ہونا چاہئے اور باطل کی پیروی اور حق کشی و حق پوشی اور لاقانونیت سے دور رہنا چاہئےچاہے کسی بھی شکل میں ہو۔اسی بنا پر جو اسلامی معاشرہ قانون اور حق مداری سے نزدیک ہوگا وہ اس کے آثار و برکات سے بہرہ مند ہوگا۔

عقلانیت اور علم کی پیروی

اسلامی اعتبار سے مطلوبہ معاشرہ وہ ہوتا ہے جو الہی قوانین اور ہدایات کے علاوہ عقلانیت اور علم کی پیروی کو اپنا نصب العین بنالیتا ہے ۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق خود عقلانیت اور علم کی پیروی بہت بلند مقام اور ضروری امر ہے جولوگ عقل کی پیروی نہیں کرتے ہیں قرآن انہیں حیوانات بلکہ ان سے بدتر جانتا ہے ۔ عقلانیت سے دوری اور جاہلیت والا شیوہ لوگوں کو الہی و اسلامی معاشرہ سے دور کرنے والا ہے اسی وجہ سے پیغمبروں اور آسمانی کتابوں کے نزول کا ایک اہم ہدف لوگوں کو عقل و علم کی پیروی کا پابند بنانا تھا۔ قرآن مجید کی متعدد آیات سے قطع نظر نہج البلاغہ کا مطالعہ کریں تو یہ بات معلوم ہوجائے گی جیسا کہ امام علیؑ نے عرب کے جاہلیت والے معاشرہ کی توصیف کرتے ہوئے پیغمبرﷺ کی بعثت کو ہدف یوں بیان فرمایا ہے کہ:
"واَنْتُمْ مَعْشَرَ الْعَرَبِ عَلَى شَرِّ دِينٍ وَ فِي شَرِّ دَارٍ مُنِيخُونَ بَيْنَ حِجَارَةٍ خُشْنٍ وَحَيَّاتٍ صُمِّ تَشْرَبُونَ الْكَدِرَ وَ تَأْكُلُونَ الْجَشِبَ وَ تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَ تَقْطَعُونَ اَرْحَامَكُمْ الْاءَصْنَامُ فِيكُمْ مَنْصُوبَةٌ وَ الْآثَامُ بِكُمْ مَعْصُوبَةٌ؛ (پیغمبر ﷺکی بعثت سے پہلے)تم گروہ عرب بدترین دین کے مالک اور بدترین علاقہ کے رہنے والے تھے ، ناہموار پتھروں اور زہریلے سانپوں کے درمیان بود و باش رکھتے تھے، گندہ پانی پیتے تھے اور غلیظ غذا استعمال کرتے تھے، آپس میں ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے اور قرابتداروں سے بے تعلقی رکھتے تھے، بت تمہارے درمیان نصب تھے اور گناہ تمہیں گھیرے ہوئے تھے" ۔
پیغمبرﷺ کی ہدایت کا نتیجہ تھا کہ:
"فَهَداهُمْ بِهِ مِنَ الضَّلالَهِ وَ انْقَذَهُمْ بِمَكانِهِ مِنَ الْجَهالَة؛ مالک(خدا) نے آپ کے ذریعہ سب کو گمراہی سے نجات دی اور جہالت سے باہر نکال لیا ۔
"ویثیروا لهم دفائن العقول؛ اور انکی عقل کے دفینوں کو باہر لائیں" ۔
امام علی(ع) کا فرمان ہے کہ جہاں عقلانیت نہ ہو وہاں تباہی اور فساد حاکم ہو تا ہے آپ معاویہ کے ہاتھوں ترویج پائے جانے والے غیراسلامی معاشرے کی ایک اہم وجہ عوام اور لوگوں کی اندھی تقلید اور ناآگاہی جانتے ہیں۔
"... وَ اَقْرِبْ بِقَوْمٍ مِنَ الْجَهْلِ بِاللَّهِ قَائِدُهُمْ مُعَاوِيَةُ وَ مُؤَدِّبُهُمُ ابْنُ النَّابِغَةِ ؛ .. وہ قوم اللہ (کے احکام)سے کتنی جاہل ہے کہ جس کاپیشرو معاویہ اور معلم نابغہ(عمرعاص) کابیٹا ہے" ۔
اسی طرح یہ بات بھی واضح ہے کہ علم، آگاہی اور بصیرت سے عاری افراد معاشرہ کی تباہی اور بربادی کا باعث بنتےہیں کیونکہ انکی اپنی کوئی پہچان ہی نہیں ہوتی ہے وہ ایک دوسرے کے اسیر اور شیطان کے آلہ کار بنے ہوتے ہیں لیکن جو چیز انسان کی حقیقت، پہچان، کرامت، اور عزت کا باعث بنتی ہے اور اسکی حفاظت کرتی ہے وہ علم، آگاہی اور بصیرت ہے۔ لہذا اس حوالے سے ایک با شعور اور تعلیم و تربیت یافتہ معاشرہ ہی سعادتمند اور ترقی یافتہ معاشرہ بن سکتاہے لہذا ایک مطلوبہ و مثالی اسلامی معاشرے کی تشکیل میں عقلانیت وعلم و دانش کا ایک اہم کردار ہو سکتا ہے۔ امام علیؑ علم اور صاحبان علم کی قدر و منزلت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"النَّاسُ ثَلَاثَةٌ فَعَالِمٌ رَبَّانِيٌّ وَ مُتَعَلِّمٌ عَلَى سَبِيلِ نَجَاةٍ وَ هَمَجٌ رَعَاعٌ أَتْبَاعُ كُلِّ نَاعِقٍ يَمِيلُونَ مَعَ كُلِّ رِيحٍ لَمْ يَسْتَضِيئُوا بِنُورِ الْعِلْمِ وَ لَمْ يَلْجَئُوا إِلَى رُكْنٍ وَثِيق؛ لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں:خدا رسیدہ عالم، راہ نجات پر چلنے والاطالب علم اور عوام الناس کا وہ گروہ جو ہر آواز کے پیچھے چل پڑتا ہے اور ہر ہوا کے ساتھ لہرانے لگتا ہے۔ اس نے نہ نور کی روشنی حاصل کی ہے اور نہ کسی مستحکم ستون کا سہارا لیا ہے" ۔
خلاصہ اور نتیجہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ کی مدیریت اور اس کے انتظام کےلئے جہاں ایک طرف لائق اور صالح قیادت و انتظامیہ کی ضرورت ہوتی ہے جس میں تمام الہی اخلاقی صفات پائے جاتے ہوں اور وہ خود الہی احکام کا پابندہو۔ دوسری طرف خود معاشرہ میں قانونیت، حق مداری، عقلانیت اور علم کی پیروی جیسے بنیادی اصول کا پایا جانا ضروری ہے۔


منابع مہم

قرآن کریم
1) شریف الرضی، محمد بن حسین، و علی بن ابی طالب (ع)، امام اول. ۱۴۱۴. نهج البلاغة (صبحی صالح)،قم - ایران: مؤسسة دار الهجرة۔
2) طبرسى، احمد بن على‌، الاحتجاج على أهل اللجاج، محقق: خرسان، محمد باقر، ناشر: نشر مرتضى‌، مشهد، 1403 ق‌۔
3) لیثی واسطی‌، علی‌بن محمد، عیون الحکم و المواعظ، تحقیق :حسین الحسنی‌‌‌‌البیرجندی،موسسه فرهنگی دار الحدیث‌، قم، 1418ق/ 1376ش۔
4) مفيد، محمد بن محمد ، الارشاد في معرفة حجج الله على العباد،محقق : مؤسسة آل البيت عليهم السلام‌،ناشر: كنگره شيخ مفيد، قم،1413 ق‌۔
5) الوانی، سید مهدی، مدیریت عمومی، تهران : انتشارات سمت۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .